المسیح کی آمد ثانی

download PDF

  لفظ مسیح عبرانی زبان میں مشی یا خ سے آیا ہے ۔ جس کا مطلب ہے ۔مسح کیا ہوا۔ بائبل کی تعلیم اور تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ اگرچہ پرانے زمانے میں مختلف انبیائے کرام، کاہن اور بادشاہوں کے لئے ان کیتخصیص کے وقت استعمال کیا جاتا رہا ،  بطور لقب اور فطرت اصل اور خاص مقصد کی بنا پر کلام مقدس بائیبل میں صرف ایک ہستی  کو ملا  جن کو مسیحی یسوع المسیح کے نام سے پکارتے ہیں اور جن  کے بارے میں صحائف انبیاء میں یکے بعد دیگرے پیشنگوئیا ں دی گئیں ۔ کہ آخری زمانہ یعنی آخرت ھایمیم میں ایک خاص شخصیت آئے گی جو نہ صرف ھا مشی یاخ یعنی المسیح ہونگے ۔بلکہملیک ھامشی یاخ  یعنی المسیح بادشاہ کہلائے جائیں گے ۔ حضرت داؤد کی نسل سے ہونگے ( یسعیاہ ۱۱ : ۲ ۔ ۵ ) ، نبی ہونگے ( استثنا ء ۱۸  : ۱۵ ۔ ۱۸)  ،  موسوی شریعت اور تعلیم کے استاد ہونگے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک ملٹری لیڈر بھی ہونگے اور مخالفین سے آزادی دلائیں گے  (  یرمیاہ ۳۳ : ۱۵ ) ۔ ان کے زمانے میں امن اور آشتی کا دور بھی آئے گا ( یسعیاہ ۱۱ : ۶ )۔ 

 اگرچہ یہودیت میں اب بھی مسیح کا انتظار ہے ،مسلمان اور مسیحی دونوں مسیح کی آمد اول اور آمد ثانی پر یقین رکھتے ہیں۔ دونوں مانتے ہیں کہ مسیح کی آمد اول ہو چکی ہے اور آمد ثانی کی توقع ہے۔  اس کےباوجود مسیح  کی ہستی اور مشن کے بارے میں کلام مقدس اور قرآن اور احادیث کی تعلیمات میں ایک واضح فرق ہے۔

لفظ مسیح کی اسلامی تشریح :

سیدنا مسیح کا ذکرقرآن میں قریباً ترانوے مرتبہ آیات میں مذکور ہوا ہے۔ ان کے نام کے ساتھ المسیح ۱۱ دفعہ قرآن میں آیا ہے ۔ اور پہلی دفعہ سورہ آل عمران آیت ۴۵ میں آتا ہے ۔جید   اسلامی مفسرین نے لفظ مسیح کی یوں تشریح کی ہے۔

  • ابن جریر طبری نویں صدی عیسوی : مسیح لقب ہے جیسے صدیق ۔ گناہوں سے پاک رکھنے کی وجہ سے ۔ برکتوں کی وجہ سے ۔
  •  الزمخشری بارہویں صدی : مسیح لقب ہے جیسے صدیق اور فاروق ۔ عبرانی لفظ ہے جسکا مطلب ہے مبارک۔
  • اما م الرازی تیرویں صدی : مسیح لقب ہے جیسے صدیق اور فاروق۔ خدا نے تمام عیوب سے پاک رکھا ۔
  •  بیضاوی تیرہویں صدی : مسیح کے القاب میں سے ایک لقب ہے ۔ خدا نے برکتوں سے مسح کیا اور گناہوں سے پاک رکھا۔
  •  ابن کثیر چودہویں صدی عیسوی : اہل سلف کا کہنا ہے کہ سیاحت کی وجہ سے مسیح کہلائے ۔ اور کچھ کہتے ہیں کہ لوگوں کو مسح کرتے تو شفایابی ہوجاتی ۔

اسلام میں مسیح کی آمد ثانی

قرآن میں  مسیح کی آمد ثانی کے بارے میں خصوصاً  سورہ الزخرف کی آیت  ۶۱ کے حوالہ سے مسلمان سمجھتے ہیں کہ مسیح کا آنا نشان قیامت ہے۔ مسلم مفسرین  مزید تفسیر کے لئے احادیث  پیش کرتے ہیں۔ اور ان کی روشنی میں سمجھتے ہیں کہ المسیح اپنی آمد ثانی کے موقع پر  صلیب کو توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے ۔ دین اسلام کی تبلیغ کریں گے ۔ امیر امت مسلمہ کے ساتھ مل کر مخالف مسیح دجال کو قتل کرکے امن قائم کر دیں گے۔ اس کے بعد شادی کریں گے۔ اولاد ہوگی ۔ بعد ازاں انتقال فرما کر انہیں پیغمبر اسلام کے قبر کے ساتھ خالی جگہ میں دفن کر دیا جائے گا۔ (مشکوٰۃ شریف ، جلد سوم باب نزول عیسیٰ) ۔

جبکہ مسلمان اسی مسیح کی آمد ثانی پر یقین رکھتے ہیں جو آسمان پر اٹھائے گئے ، ایک گروہ بنام جماعت احمدیہ نہ صرف مسیح کی رفع آسمانی کا انکار کرتے ہیں بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ المسیح  اگرچہ مصلوب ہوئے وہ صرف بے ہوش تھے ۔  بعد میں مسیح نے ہجرت کی اور ۱۲۰ سال کی عمر میں سری نگر کشمیر میں وفات پائی اور ان کی دوسری آمد روحانی طور سے کسی اور کی صورت میں ہونے تھی یعنی خود مسیح نے نہیں بلکہ ایک مثیل مسیح کا وعدہ کیا گیا تھا جو ۱۸۳۵ میں مرزا غلام احمد کے نام سے اس دنیا میں آئے اور ۱۹۰۸ میں فوت بھی ہوگئے۔

کلام مقدس کی روشنی میں حضور المسیح کے آنے  کے دو اہم مقاصد

کلام مقدس  بائیبل کے عہد  عتیق کی پیشنگوئیوں کے مطابق اپنی پہلی آمد پر "مسیح موعود دکھ اٹھائے گا"۔ اور دوسری آمد پر " مسیح موعود بادشاہ ہوگا" ۔ سو عہد جدید انجیل مقدس میں ہمیں ذکر ملتا ہے کہ اپنی پہلی آمد پر انہوں نے انسانوں کے گناہوں کا کفارہ اپنی جان دی، اس لیے وہ انسانیت کے نجات دہندہ ہیں۔ اپنی دوسری آمد پر وہ بادشاہ ، قاضی محشر اور منصف ہونگے ۔ کلام مقدس کی تعلیم ہے کہ آپ دنیا کے آخر میں کمال جاہ وجلال کے ساتھ نزول فرمائیں گے اور زندوں اور مردوں، راستبازوں اور گناہگاروں کی عدالت کریں گے۔

مسیح کی آمد ثانی اہم موضوعات میں سے ایک ہے ۔ تاہم ہمیں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ آپ اپنی دوسری آمد پر ایک انسان کی مانند زندگی گزاریں گے ، وفات پائیں گے اور دفن ہوں گے۔ جب مسیحی کلمتہ اللہ  کی آسمان سے دوسری آمد کی بات کرتے ہیں تو وہ آسمان سے آپ کی پہلی آمد پر بھی پہلے سے ایمان رکھتے ہیں۔ دونوں عقیدے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ متعدد موقعوں پر سیدنا مسیح نے بتایا کہ میں آسمان سے اترا ہوں اور وہیں سے دوبارہ آؤں گا (یوحنا ۳ : ۱۸ ؛ ۸ : ۲۳ ؛ ۱۴ : ۲۳ ؛ ۱۶ : ۲۸ ؛  متی ۲۵ : ۳۱ ، ۳۲ ؛ ۲۶ : ۶۴ )۔  دوسری آمد پہلی آمد سے مختلف ہے۔  وہ فاتح بادشاہ اور ایک طاقتور عادل کی طرح آئیں گے۔  ایک موقع پر المسیح نے اپنے بارے میں فرمایا  ’جب ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا اور سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے۔ اور  بھیڑوں کو اپنے دہنے طرف اور بکریوں کو بائیں کھڑا کرے گا۔ اس وقت بادشاہ اپنی دہنی طرف والوں سے کہے گا آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایئ عالم  سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اسے میراث میں لو۔‘ ( متی ۲۵ : ۳۱  ۔ ۳۶ )

وہ لوگ جنہوں نے حضور المسیح کے فرمان کے مطابق محبت اور یگانگت کا برتاؤ نہیں کیا وہ انہیں کہیں گے ۔ اے ملعونو  میرے سامنے سے  اس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ جو ابلیس اور اس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے‘ (متی ۲۵  : ۴۱ ) ۔

 کلام مقدس کی رو سے بدکار ابدی عذاب سہیں گے مگر راست باز ابدی زندگی میں داخل ہونگے۔ خواہ ہمارا تعلق کسی نسل یا مذہب سے ہو ایک دن ہم سب مسیح کے تخت عدالت کے سامنے کھڑے ہونگے اور جو کچھ ہم نے اس جہان میں کیا ہے اس کے مطابق ہماری عدالت ہوگی۔ جیسا کہ کلام مقدس میں لکھا ہے ’ضرور ہے کہ مسیح کی عدالت کے سامنے جاکر ہم سب کا حال ظاہر کیا جائے تاکہ ہر شخص اپنے کاموں کا بدلہ پائے جو اس نے بدن کے وسیلہ سے کئے ہوں۔ خواہ بھلے ہوں خواہ برے (۲ کرنتھیوں ۵ : ۱۰ )۔ المسیح منصف کی حیثیت سے عدل اور انصاف سے فیصلہ کریں گے۔

کلام مقدس میں عدالت کا منظر مکاشفہ کی کتاب میں دیا گیا ہے۔ المسیح کے رسول یوحنا نے  رویا میں عدالت کا منظر ان الفاظ میں بیا ن کیا ہے:

’پھر میں نے چھوٹے بڑے سب مُردوں کو اس کے تخت  کے سامنے کھڑے ہوئےدیکھا اور کتابیں کھولی گئیں۔  پھر ایک اور   کتاب کھولی گئی یعنی کتابِ حیات اور جس طرح ان کتابوں میں لکھا ہوا  تھا  ان کے اعمال کے مطابق مُردوں کا اِنصاف کیا گیا ‘ (مکاشفہ ۲۰ : ۱۲)

 لیکن کیا ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں اس دن سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں؟ جی ہاں یہ وہ لوگ ہیں جو نجات دہندہ مسیح یسوع پر ایمان لائے ہیں ۔ مسیح نے فرمایا ہے ’ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا  اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اس کی ہے اور اس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہوگیا ہے‘ (یوحنا ۵ : ۲۴)

 


download PDF